سماج کی بگڑتی حالت

سماج کی بگڑتی حالت

بہت دکھ کی بات ہے کہ روزانہ اخبار کھولنے پر جو خبریں ابھر کر آتی ہیں ان سے سماج کی حالت کاعکس دکھائی دیتا ہے ۔ یہ سماج چاند پر نہیں ہے، یہیں اس زمین پر ہے اور ہمارا آپ کا بنایا ہوا ہے ۔عورتوں کے ساتھ بلاتکار، بچوں کے ساتھ بدتمیزی، بڑی عمر کے لوگوں سے بدسلوکی اور غیر قانونی حرکتوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی فہرست ۔یہ سب ایسا محسوس کرواتے ہیں کہ ہم نہ جانے کس جہالت کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہی مذہب اور بھکتی کا ڈھول بھی پیٹا جاتا ہے ۔سنت اور گورو اپنے پیروکاروں کی بھیڑ سے بھگوان کو روزانہ سامنے لاتے ہیں ۔پھر بھی انھیں میں سے شیطانیت کے ٹھیکیدار بھی ابھرتے ہیں۔ چاہے مغرب ہو، مشرق ہو، شمال ہو یا جنوب ہو،ملک کے ہر کونےسے انسان کے حیوان بننے کی تصویر ابھر رہی ہے ۔ایسا نہیں کہ اچھائی نہیں ہے ۔وہ بھی بہت ہے،لیکن جس ترقی اور تہذیب کا دعویٰ انسان کرتا ہے، اس کی امید غرق ہوتی جارہی ہے۔کسی پر الزام دینا حقیقت سے منہ چھپانا ہوگا ۔سنسکار، پرورش، مریادہ اور تعلیم سب ایک ساتھ کمزور ہو گئے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔انسان کی کامیابی صرف اقتصادی معیار سے دیکھی جانے لگی اور اس کو حاصل کرنے کے لئے زندگی بہت کم وقت دیتی ہے ۔ظاہر ہے کہ ہر طریقہ جائز بن جاتا ہے تاکہ مقصد حاصل ہو اور کسی قیمتپر ہو!پھر رشتوں اور اصولوں کے لئے کوئی جگہ نہیں رہتی ! سماج اپنی دوڑ میں ہے اور انسانیت بیساکھیوں کا سہارا بھی کھو رہی ہے ! نوین

Editor Name: نوین Updated: Wednesday, Jul 16, 10:34 am

کینیڈا کو اپنے نظم و نسق پر دھیان دینا چاہئے !

کینیڈا کو اپنے نظم و نسق پر دھیان دینا چاہئے !

جب بھی خالصتان کے بہانے کوئی حماقتکی جاتی ہے تو اس کا مرکز کینیڈا ہی ظاہر ہوتا ہے ۔بھلے نشانہ ہندوستان ہو،لیکن عمل کینیڈا سے وابستہ ہے ۔یہ بھی کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جو حیوانی کاروائی کی جاتی رہی ہے وہ ہو بھی کینیڈا کے اندر ہی رہی ہے!اصلیت میں کینیڈا کے اندر خالصتان کے شعلوں کو ہوا دی جاتی ہے اور دکھاوا یہ کیا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کی سرکار کے خلاف ہو رہا ہے۔مقصد جو بھی ہو، کینیڈا کو اپنے اندر نظم و نسق پر غور کرنا ضروری ہے ۔شاید محض قانون کا عمل پابند بنایا جائے تو وہاں کے لوگوں کو بہتر زندگی حاصل ہوگی۔ہندوستان کے سفارتی عہدیداروں کو دھمکیاں، ہندوستان کے لیڈروں کو غلط روشنی میں پیش کرنا،حکومت ہند کی مخالفت کا سلسلہ اور سکھ جذبات کو استعمال کرتے ہوئے انسانیت کی خلاف ورزی یہ سب ہو تو کینیڈا میں رہا ہے!اس کو روکنا کینیڈا کی سرکار کا فرض ہے ۔یہ صرف بین الاقوامی اصولوں کی بات نہیں،بلکہ کینیڈا میں رہنے والوں کی روز مرہ زندگی کی حفاظت کا سوال بھی ہے۔جس طرح سے منظر ابھر رہا ہے، اس سے کسی کو حیرانی نہیں ہوگی اگر کچھ برسوں کے بعد کینیڈا کے اندر خالصتان کو وجود دینے کی کوشش کی جائے! کیا اس کے لئے کینیڈا کے عوام اور لیڈر تیار ہیں؟ کیا فوری ووٹ کے لالچ میں ملک کا مستقبل داؤ پر لگایا جارہا ہے؟ نوین


Editor Name: نوین Updated: Tuesday, Jul 15, 10:57 am

کیا ٹرمپ کا رویہ امریکہ کے مخالفوں کے مفاد میں ہے ؟

کیا ٹرمپ کا رویہ امریکہ کے مخالفوں کے مفاد میں ہے ؟

وقت گزرتا جارہا ہے اور صدر ٹرمپ اپنی سوچ کو اسی انداز سے بڑھانے میں لگے ہیں۔ تجارتی دائرے میں جو زلزلہ پیدا کیا گیا وہ خاموش کرنے کی کوشش بھی نظر نہیں آرہی۔ اس کے ساتھ امریکہ کے اندر جو فضا بن رہی ہے وہ بذات خود چنتا کا موضوع ہے۔کم از کم امریکی شہریوں کے لئے تو ہے ہی!خارجہ محکمے سے وابستہ بہت سے لوگوں کو نوکریوں سے بے دخل کر دیا گیا ہے ۔ہو سکتا ہےکہ ٹرمپ انتظامیہ اس کے لئے ٹھوس وجہ رکھتی ہو، لیکن اس کا اثر تو قابو سے باہر ہوگا ہی!تجارتی ڈیوٹی کو لیکر جو اعلانات ہوئے ہیں ان کا اثر بھی بہت تعمیری نظر نہیں آرہا۔
ہو سکتا ہے کہ وقت کچھ نیا ظاہر کرے، لیکن ابھی تو تاریک ماحول بن رہا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ بدیشوں سے بھی وہ مخالفت نہیں ہو رہی جو امید کی جاتی تھی۔کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ امریکہ مخالفوں کے لئے ٹرمپ کا رویہ سب سے بڑا فائدہ دینے کا اشارہ کر رہا ہے!عالمی سطح پر امریکہ کے بغیر رشتوں کو وجود دینے کی کوشش ہے۔ یہ بھلے ہی مجبوری میں ہو، اس کا اثر لمبا ہونا ظاہر ہے ۔ایک دفعہ دنیا کے ملکوں کو امریکہ کے بغیر سلسلہ چلانے کا راستہ مل جائے گا، پھر وہ جلد واپس آنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔ان کو واپس لانے کے لئے امریکہ کو بڑی قیمت ادا کرنی پر سکتی ہے۔کیا یہ چین اور دوسرے ملکوں کے لئے موقع بن کر ابھر رہا ہے ؟عالمی سفارتی دائرے میں اس پہلو پر چرچہ ہونی لازمی ہے ! نوین

Editor Name: نوین Updated: Monday, Jul 14, 10:14 am

کیا ٹرمپ کا رویہ امریکہ کے مخالفوں کے مفاد میں ہے ؟

کیا ٹرمپ کا رویہ امریکہ کے مخالفوں کے مفاد میں ہے ؟

وقت گزرتا جارہا ہے اور صدر ٹرمپ اپنی سوچ کو اسی انداز سے بڑھانے میں لگے ہیں۔ تجارتی دائرے میں جو زلزلہ پیدا کیا گیا وہ خاموش کرنے کی کوشش بھی نظر نہیں آرہی۔ اس کے ساتھ امریکہ کے اندر جو فضا بن رہی ہے وہ بذات خود چنتا کا موضوع ہے۔کم از کم امریکی شہریوں کے لئے تو ہے ہی!خارجہ محکمے سے وابستہ بہت سے لوگوں کو نوکریوں سے بے دخل کر دیا گیا ہے ۔ہو سکتا ہےکہ ٹرمپ انتظامیہ اس کے لئے ٹھوس وجہ رکھتی ہو، لیکن اس کا اثر تو قابو سے باہر ہوگا ہی!تجارتی ڈیوٹی کو لیکر جو اعلانات ہوئے ہیں ان کا اثر بھی بہت تعمیری نظر نہیں آرہا۔
ہو سکتا ہے کہ وقت کچھ نیا ظاہر کرے، لیکن ابھی تو تاریک ماحول بن رہا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ بدیشوں سے بھی وہ مخالفت نہیں ہو رہی جو امید کی جاتی تھی۔کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ امریکہ مخالفوں کے لئے ٹرمپ کا رویہ سب سے بڑا فائدہ دینے کا اشارہ کر رہا ہے!عالمی سطح پر امریکہ کے بغیر رشتوں کو وجود دینے کی کوشش ہے۔ یہ بھلے ہی مجبوری میں ہو، اس کا اثر لمبا ہونا ظاہر ہے ۔ایک دفعہ دنیا کے ملکوں کو امریکہ کے بغیر سلسلہ چلانے کا راستہ مل جائے گا، پھر وہ جلد واپس آنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔ان کو واپس لانے کے لئے امریکہ کو بڑی قیمت ادا کرنی پر سکتی ہے۔کیا یہ چین اور دوسرے ملکوں کے لئے موقع بن کر ابھر رہا ہے ؟عالمی سفارتی دائرے میں اس پہلو پر چرچہ ہونی لازمی ہے ! نوین

Editor Name: نوین Updated: Monday, Jul 14, 10:14 am

ہند کے خلاف پروپیگنڈہ

ہند کے خلاف پروپیگنڈہ

چند روز پہلے ملک کے سلامتی صلاح کار، اجیت ڈوبھال صاحب نے ایک تقریب کے دوران بہت ہی صاف الفاظ میں کہا کہ آپریشن سندور میں ہندوستان کو کوئی نقصان نہیں ہوا! انہوں نے کہا کہ ایک بھی تصویر نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ پاکستان نے ہندوستان میں کوئی نقصان پہنچایا ۔پھر بھی بدیشی میڈیا اس بات کو لیکر بڑے دعوے کر رہا ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ سب ایک سازش کا حصہ ہے،جو ہندوستان کے خلاف مختلف دائروں پے رچی جارہی ہے۔ ڈوبھال صاحب کے بیان کو ہلکا نہیں لیا جاسکتا ۔ وہ سیاستداں نہیں کہ ان کو کسی نظریئے کو بڑھاوا دینا ہے!وہ ملک کی سلامتی کے نگہبان ہیں اور اس پر ان کی جواب د ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ کوئی بغیر بنیاد بیان نہیں دیں گے ۔ان کا نظریہ صرف ملک کے اندر وزن نہیں رکھتابلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی اہمیت ہے ۔قابل غور مدعا یہ ہے کہجو پروپیگنڈہ کی سازش ہندوستان کے خلاف چل رہی ہے وہ نئی نہیں۔اس کو برسوں سے عمل دیا جاتا رہا ہے۔اس کا فائدہ الگ الگ انداز سے ملک کے دشمنوں نے اٹھایا۔ اندرونی مایوسی پیدا کی اور عوام کو نا اہل محسوس کروایا۔ سرکار اور انتظامیہ کے خلاف ماحول پیدا کیا تاکہ لوگ اس پر یقین کم کریں ۔اندرونی تناؤ بڑھا جس سے ترقی اور تعمیری کام کمزور ہوئے۔ ان سب کے ساتھ بدیشی گھس پیٹھئے ہندوستان میں انتہا پسندی کے لئے ہمدردی کا دائرہ بنانے میں حوصلہ کرنے لگے ۔یہ سب ملک کی جڑوں کو کمزور کرنے کا سلسلہ بن گیا ۔ڈوبھال صاحب کی بات کو ابھارتے ہوئے ضرورت ہے اس سازش کا ٹھوس جواب دینے کی۔جو کھیل چیناور اسکے دوست کھیل رہے ہیں وہ ہندوستان بہتر کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اول تو یہ کہ بدیشی پروپیگنڈہکو رد کیا جائے۔دوسرا اس کا ٹھوس ثبوت دنیا کے سامنے رکھا جائے۔تیسرا جو شرارت بدیشی کر رہے ہیں وہی ہم بھی زیادہ قابلیت کے ساتھ کر سکتے ہیں۔اگر ان میں دم ہے تو اس کاجواب دیں۔یہ اپنے آپ میں ملک کی سلامتی میں ٹھوس یوگدان ہوگا!اس میں ہمارے لئے بڑی بات یہ ہے کہ ہم بہت کچھ حقیقت پیش کر سکیں گے جو بدیشی نہیں کر سکتے ! ان کی کمزوریاں ہم سے بہت زیادہ ہیں!اس میں ہر ہندوستانی مددگار ہو سکتا ہے ! نوین
Editor Name: نوین Updated: Saturday, Jul 12, 10:36 am

بارش پر نہیں تو اسکے اثر پر قابو کی کوشش لازمی !

بارش پر نہیں تو اسکے اثر پر قابو کی کوشش لازمی !


یہ سب مانتے ہیں کہ قدرت کو قابو کرنا ممکن نہیں۔بارش یہ بات ہر سال بخوبی یاد دلاتی ہے ۔ہر انتظامیہ اور حکومت بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، لیکن جب موقع سامنے آتا ہے تو سب کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں ۔حال میں دہلی کے اندر بارش کا قہر ظاہر ہوا۔یہ بھی ماننا ہوگا کہ اس سال دہلی کو وہ بارش نہیں ملی جو ملنے کے آثار تھے ۔پھر بھی درہم برہم ہو گیا ہے۔ لوگوں کی جانیں گئیں۔ جائیداد کا بڑا نقصان ہوا،اور روز مرہ کی زندگی پریشانی کے دلدل میں دھنستی نظرآنے لگی ۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس ماحول میں بھی کچھ لوگ تھے جو اس بات کا ڈھول پیٹ رہے تھے کہ کیسے اتنے برسوں کے بعد منٹو پل میں پانی نہیں جمع ہوا۔وہ صحیح ہوں گے،لیکن ان جگہوں کا ذکر کیوں نہیں کیا جہاں سب ڈوبتا نظر آیا؟یہ ایک طرفہ شاباشی بہت وزن نہیں رکھتی ۔عوام کی زندگی ہی سب سے بڑا معیار ہے کامیابی اور ناکامی کا !اس کو کسوٹی رکھ کر جائزہ لینا درست ہوگا ۔ایسا نہیں کہ دہلی کی سرکار کچھ کر نہیں رہی ! وہ اپنی کوشش میں مصروف ہے، لیکن اس سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔بھا جپا کے پاس ذرائع ہیں۔ بس اس کو صحیح استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔دہلی کو موسم سے مقابلہ کرنے کے درجے پر لانے کے لئے بہت محنت لگے گی۔ اس کے ساتھ سرمایہ بھی بہت چاہئے!دونوں کو ایک ساتھ عمل دینا آسان نہیں، لیکن اس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ نوین

Editor Name: نوین Updated: Friday, Jul 11, 10:55 am

مودی جی کے دور میں خارجہ ماحول

مودی جی کے دور میں خارجہ ماحول


پردھان منتری مودی کے دور میں ملک کے خارجہ دائرے نے بہت سے پہلو دیکھے ہیں۔ زیادہ تر بہتری کا اشارہ ملتا رہا ہے ،حالانکہ مشکلوں کے لمحے بھی ظاہر ہوئے ۔حال ہی میں مودی جی نے بدیشی ملکوں کی پارلیمنٹوں میں 17 تقریروں کو مکمل کیا ۔یہ گزشتہ پردھان منتریوں کے ذریعے دی گئی تقریروں کے برابر ہی نہیں بلکہ زیادہ ہو گیا ہے ۔کہنے کو کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے اعدادوشمار سے کیا ثابت ہوگا؟ شاید بہت ٹھوس کچھ نہیں،لیکن اس کا مستقبل پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔جب ایک لیڈر کسی دوسرے ملک کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتا ہے تو یہ محض روایت پوری نہیں ہوتی،بلکہ دونوں ملکوں کے اندرونی رشتوں کی جھلک ظاہر ہوتی ہے۔ اگر ملک کے قانون ساز، بغیر پارٹی یا سیاسی سوچ کے بدیشی رہنما کو سنتے ہیں تو اس کا صاف معنی ہے کہ دونوں تہذیبوں کے درمیان سیاست سے بڑھ کر تعلق ہے ۔یہی بین الاقوامی سطح پر پائیدار رشتوں کی بنیاد ہوتی ہے۔عالمی فضا میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں،لیکن اندرونی مضبوطی اپنی جگہ قائم رہتی ہے ۔یہ تب معلوم ہوتا ہے جب ملک کے رہنما دوسرے دیشوں میں جاکر وہاں کے لیڈروں کو اپنا نظریہ بیان کرتے ہیں۔ محض سرکاری عہدیداروں تک بین الاقوامی روایت ہے،لیکن کل سیاسی دائرے کو نظریہ پیش کرنا بنیادی عزت اور نزدیک رشتے کا ثبوت ہے ۔یہ مودی جی کے دور میں ابھر کر آیا ہے ۔ ہندوستان کو اس کا فائدہ وقت آنے پر ظاہر ہوگا ! نوین

Editor Name: نوین Updated: Thursday, Jul 10, 10:29 am

امریکہ کو اندر جھانکنا چاہئے !

امریکہ کو اندر جھانکنا چاہئے !


امریکی صدر ٹرمپ روزانہ اعلان کر دیتے ہیں کہ وہ دنیا کے ملکوں کو اپنے مطابق چلانے کا سلسلہ تیار کر رہے ہیں ۔ٹیکس کے مدعے کو لیکر ایسا پیچیدہ خاکہ بنا لیا گیا ہے کہ کوئی بھی امریکہ سے اختلاف نہیں کر سکے گا۔کم از کم، ایسا صدر ٹرمپ سوچتے ہیں!جہاں بھی لگتا ہےکہ امریکہ مخالف ماحول بن سکتا ہے وہاں ٹرمپ صاحب اپنی دھمکی جاری کر دیتے ہیں ۔یہ ان کا حق ہے لیکن باہر دھمکیاں دینے سے پہلے اپنے گھر کے اندر بھی جھانکنے کی ضرورت ہے ۔امریکہ میں ایسا سیلاب آیا ہے جس میں 88 لوگ مارے جا چکے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی قدرتی آفات آتی رہی ہیں جن سے ملک اور اس کے شہریوں کو نا قابل برداشت نقصان ہوا ہے ۔ایک وہ دور تھا جب امریکہ کا نظام ایسا اعلیٰ تھا کہ انسانی زندگی محفوظ مانی جاتی تھی۔بیماری، قدرتی مشکلیں اور روز مرہ کی پریشانیوں کا مقابلہ کرنے میں یہاں کا انتظامیہ اول اور کامیاب مانا جاتا تھا ۔یہ سچ ہے کہ قدرت سے مقابلہ مشکل ہے اور اس کے زور کے آگے بڑی بڑی طاقتیں دھری رہ جاتی ہیں۔ یہاں قابل غور نقطہ یہ ہے کہ گزرتے وقت کے دوران امریکی ترقی کس طرح کی ہوگئی ہے کہ جو سہولیات پہلے آسانی سے مہیا تھیں، وہ اب حاصل ہونی نا ممکن لگتی ہیں؟ظاہر ہے کہبھاری کمی رہی اور اس کی طرف دھیان نہیں دیا گیا!آج امریکی انتظامیہ بدیشوں میں اپنی زور آزمائش کا ڈھول پیٹ رہا ہے جب کہ گھر کے اندر حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں!کیا امریکی عوام اور لیڈر اس پہلو پر دھیان دیتے ہیں ؟دنیا تو دیکھ رہی ہے ! نوین

Editor Name: نوین Updated: Tuesday, Jul 8, 10:31 am

پردھان منتری جی کی حق گوئی

پردھان منتری جی کی حق گوئی


پردھان منتری مودی نے برازیل میں ہو رہے برکس کے شکھر سمیلن میں جنوب کے بارے میں جو مدعااٹھایا وہ نہ صرف قابل غور ہےبلکہ حالات کی صحیح تصویر بھی ہے ۔مودی جی نے صاف الفاظ میں بیان کیا کہ شمال جنوبی ممالک کے ساتھ دوہری سوچ استعمال کرتا ہے ۔ یہ معمولی بات نہیں ۔اس سے ترقی یافتہ ملکوں کا بنیادی رویہ ظاہر ہوتا ہے جو بیشتر مدعوں پر لاگو کیا جاتا رہا ہے۔ اگر انتہا پسندی شمالی ملک کے خلاف ہو تو اس کے خلاف کاروائی جائز ہے، لیکن اگر جنوبی ملک نشانہ بنے تو تناؤ اور تشدد کو روکنے کا گیان دیا جاتا ہے ۔یہ کسی بھی انداز سے مناسب نہیں ہو سکتا۔ یہ دوہری سوچ نئینہیں،لیکن اس کے خلاف آواز بلند کر کے ٹھوس متبادل کھڑا کرنا ہوتا نہیں تھا۔ مودی جی نے اس کےلئے راستہ کھولا ہے ۔جنوب کےملکوں کے بیچ بھاگیداری کوئی نیا پہلو نہیں،لیکن اس کو ابھار کر پالیسی کا حصہ بنانا اب ہونے لگا ہے۔ پہلے بھی کوشش کیگئی ۔کچھ کامیابی بھی کہی جاسکتی ہے، یہ کافی نہیں ۔اسی پہلو کو آگے لانے کے لئے مودی جی برکس میں اس پر غور دلا رہے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی ہوگیکہ اس سوچ میں چین اور روس بھی شریک ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ بات مغربی ملکوں کو خاص نشانہ بنا رہی ہے ۔امریکہ اور یوروپی ملکوں کا جنوبی ممالک کو محض ایک بیوپاری مرکز کے طور پر استعمال کرنا کافی نہیں ۔ان کو جنوب کے مسئلوں کو بھی حل کرنے میں شریک ہونا پڑے گا ۔مودی جی نے صحیح پلیٹ فارم اور موقع چنا یہ اہم مدعا دنیا کے سامنے لانےکے لئے ۔ نوین

Editor Name: نوین Updated: Monday, Jul 7, 11:00 am

صوبوں میں سیاست اورحب الوطنی

صوبوں میں سیاست اورحب الوطنی

ایک عرصے سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ صوبوں میں سیاست بہت علاقائی رنگ اختیار کرتی جارہی ہے ۔کون سا صوبہ، کون سی سیاسی پڑتی اور کیا مدعا،اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔مقصد وہی ہے اور انداز بھی وہی! ظاہر ہے کہ جمہوریت کے اندر ووٹ حاصل کرنا حرف آخر ہوتا ہے ۔وہی کامیابی اور ناکامی کا معیار ہے ۔اس لئے جو ووٹ دلائے وہی پیش کیا جاتاہ ے۔صرف ایک بنیادی پہلو نظر انداز ہو رہا ہے اور وہ یہ کہ صوبہ ہے تو ملک کا حصہ ۔ اس کی جو بھی پہچان ہے وہ ہندوستان کے ساتھ ہی ہے ۔یہ ممکن نہیں کہ ایک صوبہ اعلی ہو اور ملک دوسرے درجے کا!صوبے کو ملک کے لئے ہی اوپر اٹھایا جاتا ہے ۔پھر وہاں کوئی بھی ایسی بات جائز کیسے ہو سکتی ہے جو ملک کو کمزور کرنے کا اشارہ دے؟ چاہے زبان کا مسئلہ ہو،چاہے ملک کے دوسرے علاقوں سے آئے لوگوں کے وجود کا ہو ! ہے تو ہندوستان کے لوگوں سے وابستہ اور اس کے حل سے ہندوستان کو فائدہ ہے!پھر سیاسی لیڈر ایسا رویہ کیسے اختیار کر لیتے ہیں جو ملک کے لئے مناسب نہیں؟اس رویے کے ساتھ وہ ہند کے حب الوطن ہونے کی مثال بھیدیتے ہیں! ظاہر ہے کہ یہ ایک پارٹی کی بات نہیں، اس لئے اس کو عوام ہی درست کر سکتے ہیں!عوام کو خود جھانکنا ہوگا اور پھر لیڈروں کو اس پر مجبور کرنا ہوگا !یہ آساننہیں، لیکن اس کے علاوہ مستقبل بہت روشن نہیں رہے گا ! نوین

Editor Name: نوین Updated: Saturday, Jul 5, 10:41 am

تازہ ترین خبر